تازہ ترین

Post Top Ad

بدھ، 11 مارچ، 2020

پردہ قید ہے؟ مولویوں نے عورتوں کو قید میں رکھا ہوا ہے انکو کسی قسم کی آزادی نہیں ۔۔۔۔مکمل تحریر



لبرل / سیکولرز کی طرف سے عورت کے پردہ کی مخالفت میں مختلف باتیں پڑھنے سننے کو ملتے رہتے ہیں ، کئی جگہ یہ پڑھنے کو ملا کہ مولویوں نے عورتوں کو قید میں رکھا ہوا ہے انکو کسی قسم کی آزادی نہیں ۔۔۔۔ان حضرات سے یہ پوچھنا چاہیے کہ قید کہتے کس کو ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ؟ہم بتاتے ہیں قید حبس خلاف طبع (طبیعت/چاہت کے خلاف قید ) کو کہتے ہیں اور جو حبس خلاف طبع نہ ہو اس کو قید ہر گز نہ کہیں گے۔ ۔ ۔مثلا باتھ روم میں آدمی اپنی مرضی سے پردہ کر کے بیٹھتا ھے، 

اگر ہر حبس /پردہ قید ہے تو اسے بھی کہنا چاہیے کہ آج ہم بھی اتنی دیر قید میں رہے ۔۔۔اس کو کوئی قید نہیں کہتا کیونکہ حبس طبعی ہے۔ہاں اگر باتھ روم میں کسی کو بلا ضرورت بند کر دیا جاے اور باہر سے تالا لگا کر ایک پہرہ دار کھڑا کر دیا جاے اور اس سے کہہ دیا جاے کہ خبرداریہ آدمی یہاں سے نہ نکلنے پائے تو اس صورت میں بے شک یہ حبس خلاف طبع ہو گااور اس کو ضرور قید کہیں گے اور اس صورت میں بند کرنے ولے پر حبس بیجا کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔۔۔


پس ثابت ہوا کہ ہر حبس کو قید نہیں بلکہ حبس خلاف طبع کو قید کہتے ہیں۔۔
اعتراض کرنے والوں کو پہلے اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں جو پردے میں رہتی ہیں ۔وہ ان کی طبیعت کے موافق ہے یا خلاف؟حبس طبع ہے یا خلاف طبع ؟اس کے بعد انکو ایسا کہنے کا حق ہے۔
سب جانتے ہیں کہ پردہ مسلمان عورتوں کے لیے خلاف طبع نہیں ہے،کیونکہ مسلمان عورتوں کے لیے حیاہ امر طبعی ہے،لہذا پردہ حبس طبع ہوا اور اس کو قید کہنا غلط ہے، بلکہ اگر ان کو بے پردہ رہنے پر مجبور کیا جائے، 

انکے حجاب پر پابندی لگادی جائے جیسے آزادی کے چئمپین اپنے ممالک میں لگارہے ہیں ‘یہ خلاف طبع بات ہوگی ۔ قید اس کو کہنا چاہیے۔ ۔ ہمارے ان ترقی پسندوں کے لیے ایسا کہنا نقصان دہ ہے ۔اس حبس/پابندی کے خلاف دو جملے بولنے سے بھی ان روشن خیالوں کی زبانوں پر چھالے نکل آتے ہیں۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

مینیو